POEM (THE ABBOT OF CANTERBURY)

 

THE ABBOT OF CANTERBURY by Anonymous

Detailed critical Summary of the poem

           " The Abbot of Canterbury " is a lyrical ballad written by an anonymous . The ballad deals with the tragedy of three people viz , Kind John bishop Abbot , and the shepherd .

            The Abbot of Canterbury was a well - reputed and wealthy bishop who used to liv a life of great pomp and show . He had hundred servants . Of these fifty used to wear C velvet coats and golden chains . It was the time when England was ruled by King John The king , by nature , was a jealous person . When he came to know the splendid and glorious life style of the bishop his jealous nature led him to think that about got hi wealth by foul means . To satisfy his jealous impulse he called on Abbot in his court an asked about his wealth . Abbot replied that all the wealth . Abbot replied that all the wealth

 

The the ive Although , Abbot was an educated person he found the questions very difficult . He roamed many places . He visited the Oxford and Cambridge as well but was all in vain . Now Abbot had no option despite coming back . ( 2 ) At his arrival his shepherd welcomed him and inquired the matter . The shepherd was a wise person who used to look after him . He got ready to answer the questions ( 3 ) before the king . Therefore , he put on Abbot's clothes and appeared in front of the King . The king repeated his questions , ear hn and his treason against his crown . he had was obtained by honest means . But the king didn't accept that and charged him of and lth The king inquired Abbot three questions and declared that he would be beheaded if he couldn't answer these questions . He was allotted three weeks for the task .

  The questions were . .

1.What was the worth of King John with his golden crown ?

2.How soon could he ride the whole world ?

3.What was he thinking at that time ?

       For the first question , he answered that the Christ was sold by a Jew for thirty pence . Therefore , the king's worth should be less than the Christ and as such that must be twenty - nine pence . For the second question , the shepherd answered that if he could rise with the sun and travel with its speed , he would complete a round around the earth in twenty four hours . For the third question he answered that the king might be imagining him the Abbot of Canterbury but merely it was a merely shepherd . Finally he apologized for Abbot and for himself . The king was so greatly pleased with him that he decided to appoint him the Abbot of Canterbury in place of the previous Abbot . But he told the king that he could neither write nor read . Therefore , the king granted him a life pension of four nobles a week and pardoned the Abbot . The whole ballad is written the form of story . King John is a realistic character who ruled England from 1199 to 1216. The Abbot of Canterbury reflects attitude of the church personnel of the time .


 " کینٹر بری عیسائیوں کا ایک مقدس مقام ہے اور ایبٹ   وہاں کے راہبوں کی اقامت گاہوں کا نگران ہے ۔ اس دور کی بات ہے جب بادشاہ جو ہن انگلستان پر حکومت کر تا تھا ۔ وہ بڑا ظالم و جابر حکمران تھا جسکے اچھے کام بہت کم اور برے کام زیادہ تھے لوگ ضبط کرتا دریافت کر - جانوروں کا اس بادشاہ کو پسند نہیں کرتے تھے ۔ دوسری طرف ایبٹ بہت مشہور تھا اس کا رہن سہن بادشاہ سے بھی اچھا تھا ۔ اس کا محل اور زندگی خوش ہو جا گزارنے کا اند از دور دراز تیک مشہور تھا ۔ اس کی مہمان نوازی کا ڈنکا ہر طرف بج رہا تھا ۔ ہر وقت اس کی خدمت میں 50 آدمی مامور ہوتے تھے جو سونے کی زنجیریں پہنتے تھے ان کے لباس قیمتی مخمل کے تھے ۔ بادشاہ تک جب اس کی شہرت کی خبر پہنچی تو بادشاہ کو بہت بر الگا ۔ ایبٹ کو دربار میں بلایا اور الزام لگایا کہ تم میری بادشاہت کے لباس جھگڑا خلاف بغاوت کر رہے ہو جس پر ایبٹ نے عرض کی جناب میں جو خرچ کر تا ہوں یہ میری دیانت داری سے حاصل کی گئی کمائی ہے ۔ لیکن ماتھے کے بادشاہ ہر حال میں ایبٹ سے چھٹکارہ حاصل کرناچاہتا تھا اس نے ایبٹ سے کہا کہ اگر تم نے تین سوالوں کے جواب نہیں دیے تو تمہارا سر تن بہت مہنگے سے جدا کر دیا جائیگا اور تمہارا سب کچھ میر ا ہو جائیگا چنانچہ بادشاہ نے مندرجہ ذیل سوالات پوچھے ۔ ( 1 ) میری قیمت اس وقت کیا ہو گی جب میرے سر پر سونے کا تاج ہو “ اور میں اپنے وزراء کے درمیان ہو جو اعلی نسب کے ہیں ؟ لباس بہادر ( 2 ) میں کتنے وقت میں پوری دنیا کا چکر کاٹ لوں گا ؟ ( 3 ) میں اس وقت کیا سوچ رہا ہوں ؟  ایبٹ یہ سوالات سن کر بہت پریشان ہو گیا اور بادشاہ سے عرض کیا کہ وہ اتنا ذہین نہیں جو ان مشکل سوالات کا جواب دے گا اس نے التجا کی کہ ان سوالات کے لیے اسے کم از کم 3 ہفتے کا وقت درکار ہے بادشاہ نے اسے تین ہفتے کا وقت دے دیا ۔ ایبٹ بہت پریشان تھا کافی سوچ بچار کے بعد آکسفرڈ اور کیمبرج یونیورسٹی کی راہ لی وہاں مختلف پی ایچ ڈی ڈاکٹر سے ملا لیکن کوئی بھی اس کے سوالات کا جواب نہیں 16 لبادہ دے سکا ۔ اس کام میں 18 دن گزر گئے اب صرف تین دن باقی تھے ۔ ایبٹ ذہنی طور پر مرنے کے لیے تیار ہو گیا ۔ گھر جاتے ہوۓ راستے میں اس کی ملاقات مراد ہے سے ہوئی جس نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ اور پوچھا کہ بادشاہ سے کیا خو شخبری لاۓ ہیں جو اب میں ایٹ نے تمام روداد سنائی جس پر چرواہا بہنے لگا اور کہنے لگا اتنے آسان سوالات ہیں اور آپ پریشان ہیں ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ  ایٹ اور پر اوہے کی شکل آپس میں ملتی جلتی تھی ۔ چرواہے نے کہا جناب آپکی جگہ میں بادشاہ کے دربار میں جاتا ہوں اگر میں جواب نہیں دے سکا تو آپ کی جان بچ جائے گی ۔ بس آپ مجھے اپنا لباس نوکر چاکر اور گھوڑاد میں ایبٹ راضی ہو گیا ۔ چرواہا جب ایڈیٹ بن کر دربار میں پہنچاتو . بادشاہ نے اسکو ایٹ سمجھ کر سوالات پوچھے جن کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں ۔ ( 1 ) حضرت عیسی کو جھوٹے یہودیوں پر  پینس ( Pennce ) میں بیچا گیا تھا ۔ آپکی قیمت ان سے ایک Penny کم بینی 29 پینس اگر آپ سورج کی رفتار سے اس دنیا کا چکر لگائیں تو گھنٹے میں آپ پوری دنیا کا چکر لگا سکتے ہیں ۔ ( 3 ) آپ سوچ رہے ہیں کہ میں کینٹر بری کا ایبٹ ہوں ۔ چرواہابادشاہ سے مخاطب ہو کر بولا جناب میں ایٹ نہیں بلکہ غریب پر اداہا ہوں ۔ بادشاہ اس کی عظمندی سے بہت متاثر ہوا اور اس کو ایبٹ بنانے کا فیصلہ کیا لیکن چراہے نے عرض کی کہ بادشاہ ایبٹ عہدہ تعلیم کا متقاضی ہے میں نہ پڑھ سکتا ہوں نہ لکھ سکتا ہوں ۔ آپ سے گزارش ہے آپ ایبٹ کو معاف کر دیں ۔ بادشاہ نے ایبٹ کو معاف کر دیا اور بطور انعام چراوہے کو 6 نوبلز ( سونے کے سکے ) ہفتہ دینے اس غزل کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ذہانت عطیہ خداوندی ہے جو پڑھائی سے نہیں آسکتی جو جواب آکسفرڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی ڈاکٹر ز نہ دے سکے وہ جواب ایک غریب ان پڑھ چراد ہے نہ دیئے ۔ 

Post a Comment

Previous Post Next Post